Friday 15 February 2013

اردوشاعری کاچوتھاستون۔مظہرفریدی


                اردوشاعری کاچوتھاستون

ہے اُفُق سے ایک سنگِ آفتاب آنے کی دیر
ٹوٹ جائے گی بکھرکرما نندِآئینہ رات
نظمِ جدیدمیں فیض ،راشداورمیراجی اپنی اپنی جگہ اہم ہیں اورمنفردمقام کے حامل بھی ہیں ،لیکن مجیدامجداردوشاعری کا چوتھاستون ہے۔اس دورکی تین تحریکیں بہت اہم تھیں۔ علامہ اقبالؒ کی تحریک،اخترشیرانی کی تحریک(رومانی تحریک)،اورترقی پسندتحریک۔ترقی پسندتحریک کے غلغلے کی وجہ سے صرف تین نام ابھرکرسامنے آسکے۔فیض احمدفیض جوترقی پسندتھے اورپوری ترقی پسندتحریک ان کی پشت پرتھی ۔دوسرے میراجی (ثناءاللہ ڈار) اپنی ذات میں ایک انجمن اورحلقۂ اربابِ ذوق کے روحِ رواں ٹھہرے۔ تیسرے راشدجوکسی بھی ادبی تحریک سے وابستہ نہیں تھے۔البتہ احراری تھے۔راشدکی زندگی ،نظریات اور شخصیت میں تضادات بہت زیادہ تھے۔ راشدکی شاعری میں بھی تضادات کا پیچیدہ اظہار وابلاغ ہے۔لیکن مغربی تہذیب کی دریوزہ گری نے انہیں کم ترکردیاہے۔یہ دھیان رہے کہ راشدمغربی تہذیب سے بہت زیادہ متأثرتھے ۔حالاں کہ خیالات کی دریوزہ گری اوراثر انگیزی توفیض کے ہاں بھی نمایاں ہے۔لیکن فیض بہت کائیاں شخص تھا۔پینترے بدلتا رہا۔ رندکے رندرہے ،ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
                نام نہادانٹلکچوئل گروہ نے موافقت اورمخالفت میں اسی مثلث کوپروان چڑھایا۔ بہت سے دوسرے اہم شعراءکے ساتھ مجیدامجدکوبھی نظراندازکیا گیا۔لیکن لال ،لال ہی ہوتاہے۔چاہے گڈڑی کا ہی کیوں نہ ہو۔حقیقت کب تک چھپی رہتی،وقت نے فیصلہ دے دیا ہے۔اوراب مجیدامجدکوجدیدشاعری کا سرخیل تسلیم کرناہی پڑے گا۔
بقول خواجہ ڈاکٹرمحمدزکرّیا"راشداورفیض دودریاہیں۔ایک پرشوراورتیزرو، جب کہ دوسراآہستہ رواورہموارہے،جب کہ امجدایک سمندرکی طرح وسیع اوربے کنارہے"۔ میر،غالب اوراقبالؒ کی طرح اسے بھی اپنے دورکا اہم ترین اور نمائندہ شاعرماننا پڑے گا۔میر،غا لب اوراقبالؒ  ہرتعریف وتوضیح سے بے نیازہوچکے ہیں،اورادب کے معیاراور علامت کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔مجیدامجدگمنامی سے شہرت کی رفعتوں، کی جانب گامزن ہے۔اس کانام نظم جدیدکے اہم ترین ناموں میں شامل ہوکران ناموں سے آگے نکلتاجا رہا ہے۔
مجیدامجدکی شاعری کا محورکائنات ہے۔کائنات کی ہرشے اورخاص طورپرانسان ہے۔ مجید امجدکی شاعری نہ فیض کی شاعری بنتی ہے ،نہ راشدکی اورنہ ہی میرا جی کی۔فیض کی شاعری سیاسی نعرہ بازی بن جاتی ہے اورراشدکی شاعری فکری ورزش کے بعد(complex) کا شکار ہو جاتی ہے ،جب کہ میرا جی کی شاعری جنس اورنفس کی پکاربن جاتی ہے۔میراجی ہندو مِتھ سے بہت زیادہ متأثرتھے (ایک دورمیں ہندومت میں نفس کی پوجابھی کی جاتی رہی ہے)۔
                                مجیدامجدکی شاعری سے قاری میں ایک ہمدردانہ رویہ جنم لیتاہے۔ مجیدامجد کیمرے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔وہ ایک قطرے میں سمندرکا مشاہدہ کرتے ہیں۔یہی قطرہ ان کی شاعری میں وقت کی علامت بنتاہے۔
شاعری نہ صرف مجیدامجدکی روح کا مسئلہ ہے بلکہ جسم کا مسئلہ بھی ہے۔ یوں غم مجیدامجدکے جسم وجاں کا مسئلہ بن گیاہے۔یہاں جسم کا روح کے بعدآنادراصل رنج سے خوگرہواانساں تومٹ جا تاہے رنج کی وجہ سے ہے۔یوں ایک زندہ غم مجیدامجدکی شاعری کی پہچان ہے۔اسی زندہ غم سے مجیدامجدکی شاعری کے سَوتے پھوٹتے ہیں۔یہ غم نہ صرف زندہ ہے،بل کہ متحرک بھی ہے۔مجیدامجدغم اوردنیا کی بے ثباتی ،عیش کی افسردگی،نشاط کی حقیقت،حیات کی ناپائیداری کا تذکرہ اس لئے نہیں کرتا،کہ انسان مایوس ہوجائے ،بلکہ اس لئے کرتاہے کہ انسان حقیقتِ حیات سے آشنا ہوجائے،اورخارزارِزیست میں زندہ رہنے کے فن سے آشنا ہوسکے۔وہ نیِش کونُوش کرسکے۔زہرکواَمرَت بنا سکے اورنشاطِ ِزیست میں کھوکرمقصدِزِیست سے غافل نہ ہو جائے۔
مجیدامجدکی شخصیت کا ایک اہم پہلواس  کی خودداری ہے۔خودی اورخودداری اعلیٰ و اَرفع   جذبہ ہے۔مجیدامجدکی خودی تمام عمردوسروں کے کام آتی رہی ۔آخری ایّام میں فاقہ مستی میں بھی خودداری نے سوال کرناتودورکی بات کسی سے ذکرتک کرناگوارا نہ کیا۔ مجیدامجد شہیدِ خودی   کے مرتبہ پرفائزہوگیا۔
                مجیدامجدکی بعض نظموں میں طنزِملیح اپنے تمام ترتیورکے ساتھ موجودہے۔ طنز تنقیدہی کی ایک صورت بھی ہے،نقدکا کام پرکھ اورجانچ ہے۔طنزاس سے ایک قدم اورآگے بڑھتا ہے اور اصلاح کا بِیڑااٹھاتاہے۔لیکن یہ اصلاح اندازِدگرسے ہوتی ہے۔تخیئل کی بلندی تیرِنیم کش بن جاتی ہے۔مجیدامجدنے کمالِ فنکاری سے وہ تما م ترتیوراپنی شاعری کا جزوبنا دئیے ہیں۔جوحسنِ شعرکی جان ہوتے ہیں۔یوں مجیدامجدکے مصرعے دھڑکتے ہیں،شعر سانس لیتے ہیں اورنظمیں ہمکتی زیست کا منظرپیش کرتی ہیں۔سسکتی زندگی اوررینگتی حیات میں بھی دامنِ امید، یاسیت آلودنہیں ہوتا۔شاعرقنوطیت سے اپنا دامن بچا لیتا ہے۔قاری بھی غموں میں گھراہونے کے باوجودروشنی اوررِجا کی طرف متوجہ رہتا ہے۔
                فطرت میں روح کے وُجودکوجدیدشعراءنے واضح طورپرمحسوس کیا ہے۔ان کے یہاں فطرت کے ذی روح اورناطق ہونے کا تصوربھی بہت واضح طورپرملتا ہے۔
علامہ اقبال کے مُنتخب کلام میں بانگ دراکی پہلی نظم'ہمالہ" ہے۔اقبالؒ نے ہمالہ کوذِی روح تصورکیا ہے اوراس سے گفتگوکی ہے۔آفتاب صبح بھی اسی قبیل کی نظم ہے۔ مجیدامجد بھی حسنِ فطرت کوانسان اورانسانیت سے متعلق بصیرتوں کے ادراک کا ذریعہ بناتے ہیں۔
مسائلِ حیات پرسوچنا ایک سنجیدہ فکری عمل ہے۔طنزاس فکری عمل میں ایک آلے کی حیثیت رکھتا ہے۔اوراگرطنزملیح ہوتوسونے پرسہاگہ ۔لیکن یہ مقامِ فن اس وقت ہاتھ آتاہے۔ جب سیلِ وقت اپنے تمام رازمُنکَشِف کردیتا ہے(ہاتھ لہوہوجاتے ہیں،تب کوزہ گری آتی ہے)۔ یوں قطرے میں سمندراورذرے میں صحرا نظرآتاہے۔
                مجیدامجدکی بعض نظموں کا اختتام اوربعض نظموں کے ہربندکا آخری مصرع ایک بے آوازتھپڑکی طرح زندگی کے چہرے پرپڑتاہے۔قاری حیرت سے دائیں بائیں دیکھتا    ہے، کہ کوئی دیکھتا نہ ہو۔جب کہ اندرکا انسان کسمساتاہے۔ ضمیربیدار ہوتا ہے۔اورقاری دائیں بائیں دیکھنے پرمجبورہوجاتاہے۔
                                مجیدامجداحساسات اورلاشعورکی سطح پربھی اپنی گرفت رکھتاہے۔اس لئے لاشعورکے نفسیاتی پہلو،منی ایچرپینٹنگز  (Miniature Paintings)سے،میورلز Murals) ) کی طرف سفرکرتے ہیں۔وہ ہرمنظرمیں یوں رنگ بھرتا ہے کہ رنگ باتیں کرتے ہیں اورباتوں سے خوشبوآتی ہے۔مجیدامجدبنیادی طورپرنظم کا شاعرہے،جولوگ نظم اورخاص کرنظمِ جدیدکوپڑھنے کا مزاج نہیں رکھتے،مجیدامجدشایدان کے لئے اہمیت کا حامل نہ ہو۔آپ بیتی ہے،کہ طبیعت نظم کی طرف مائل ہی نہیں ہوتی تھی ۔لہٰذاایک مدت تک نظم اورنظم جدیدکہنے والوں کوپڑھنا ایک ناخوش گوارسا عمل تھا۔لیکن جب سے طبیعت نظم آشنا ہوئی ہے ،منظرست رنگ ہوگئے ہیں ۔
                کلامِ امجدکامطالعہ شروع کریں تومجیدامجدکی شخصیت اورشاعری ایک نئی نویلی دلہن کی طرح سجی سجائی،لپٹی لپٹائی آپ کے سامنے آبیٹھتی ہے۔یوں دھیرے دھیرے رات گذرتی ہے توبات چل نکلتی ہے۔مجیدامجدکی شخصیت اورشاعری بھی پرت درپرت (خلوتِ اوراق میں) کھلتی چلی جاتی ہے۔پہلے پہل مجیدامجدنازِصداقت کئے بغیرمحفلِ دل میں آبیٹھتاہے۔پھر حرزِجاں بن جاتاہے اورآخرمیں مجیدامجدہوتاہے، نہ تونہ میں۔
                صرف یہی نہیں اکثرنظمیں جومجیدامجدکی گھمبیرعبقری شخصیت کوسمجھنے کے لئے معلومات فراہم کرتی ہیں ۔وہ معاشرے کا عکس بن جاتی ہیں اورفردکی زندگی کے راز، منعکس ہونے لگتے ہیں۔اگلامرحلہ قاری کی اپنی شخصیت کے اِنکشَاف کا ہے۔معاشرہ اورمعاشرتی رویے آئینہ ہونے لگتے ہیں۔جوقاری کی شخصیت کا حصہ اورحافظہ ہیں۔اس لئے مجیدامجدکا مطالعہ ،جو اردونظم کوسمجھنے کے لئے شروع ہوا تھا،وہ معاشرے سے ہوتاہوااپنی شخصیت تک پہنچتاہے۔اس مطالعاتی سفرمیں خارجی اورداخلی سطح پرکئی سربستہ پہلوواضح ہوتے ہیں۔
                میر،غالب اوراقبال کی شاعری میں انفرادی سوچ دراصل اجتماعی شعورہی کا حصہ اورعلامت ہے اورفرداپنی بات کرتے ہوئے معاشرے کوالگ نہیں کرسکتا۔معاشرے سے
کٹ کر نہیں رہ سکتا کیوں کہ شاعرکا شعوراجتماعی شعورہوتاہے۔جیسا کہ سلیم احمدنے غالب کی شخصیت میں اکائی کے بکھرنے کی بات کی ہے۔لیکن وہ اکائی کا بکھرنا۷۵۸۱ءکی جنگ آزادی میں ملی اکائی کا بکھرناہے،اورغیردانش مندانہ مصلحت اندیشی کی وجہ سے یورپی تہذیب کا اپنانا ہے۔ غالب توفقط بیان کرنے کا سزاوارہے۔مزیدتفصیل کے لئے راقم کا مضموں "پوچھتے ہیں وہ کہ غا لبؔ کون ہے"دیکھیے۔
                جب کہ مجیدامجدتک پہنچتے پہنچتے اجتماعی شعور،روئیے اورفکربکھرچکاتھا ۔فردہی سب کچھ تھا۔لہٰذامجیدامجدکی شاعری میں اجتماعی شعوربعض اوقات انفرادی بنتادکھائی دیتا ہے۔لیکن یہ انفراد  یت موجودیت پرستی(Existentialism (کی طرف نہیں لے جاتی اورنہ ہی یاسیت (sadism)یاقنوطیت بنتی ہے۔مجیدامجدکا عمومی رویہ اجتماعی ہے۔ اورانفرادیت آلودنہیں ہوتا۔ مجیدامجدکمالِ مہارت سے اپنا دامن بچا لیتا ہے۔اور فرد کومعاشرے اورآفاقی مناظرکی علامت بنا دیتا ہے۔
                مجیدامجدکی شاعری میں وقت'لمحے' کی شکل میں ظاہرہوتاہے۔اورلمحے کو مجیدامجدنے ایک قطرے کی صورت میں دیکھا ہے۔یہی قطرہ موتی یاگہرِآبداربھی بن سکتا ہے۔ اوریہی قطرہ بلبلہ بھی بن سکتا ہے۔گہرآبداریابلبلہ بننااپنی استطاعت سے باہرہے ۔ ہردوحیثیتوں میں حالات اورماحول کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔اورقدرت کی عطا کا قانون اپنی جگہ اٹل ہے۔
                                مجیدامجدنے قطرے سے گہرِآبداریابلبلہ بننے تک اوراس
گہرِآبداریاقطرہ کی کیفیت کوایسے زاویۂ فکراورپہلوؤں سے اجاگرکیا ہے۔کہ یہ اظہارزندہ غم بن گیاہے۔اگرچہ خوبیٔ قسمت سے گہرِآبداربن بھی جائے توبھی اس کے بعدبے شمار مرحلوں سے گذرناپڑتاہے۔ ممکن ہے کہ سمندرکی تہہ میں پڑا رہ جائے۔ممکن ہے،طوفانی موجیں ساحل کی ریت پرپھینک دیں اور ساحل کی ریت تک پہنچنے کے بعدبھی کیا معلوم ؟کیا ہو؟اسی طرح بلبلہ چندلمحوں کی حالت (زندگی) میں اپنے محدودکرّے میں کتنے عکس اورنقش رکھتا ہے۔ان تمام کیفیتوں کااظہار مجیدامجد کی شاعری میں خصوصیت کا حامل ہے۔اس لئے مجیدامجدکی شاعری میں ،امروز،کا تصور ابھرتا ہے۔ہرنیادن ’امروز‘ ہے ۔ مجیدامجدلمحۂ موجودکا شاعرہے۔اور ہردورکا شاعرقرارپائے گا۔
                ماضی کی اندھیری رات،لمحہ موجودکا کرب،سیلِ زمانہ کے جبر،عہدِرواں کے مسائل ، صلیبِ فکرپرٹنگی ہوئی روح اورروحِ عصرکی بسمل کی تڑپ اوراس تڑپتی زیست کا دکھ ،جو آہوں، سسکیوں اورکرلاہٹوں سے نموپاتاہے۔ان سب کوبیان کرنے کے بعدمستقبل کے سہانے سپنوں میں کھوجانے کی بجائے،اختتام کی حسرت برقراررکھتا ہے۔یہ اظہارنہ ظالم کے ظلم پر تعزیر لگاتا ہے،نہ مظلوم کوسراب سپنوں کا باسی بناتاہے۔بلکہ حالات کے برزخ پرروشنی ڈالنے کے بعد، سوچ کومِہمِیزلگاتاہے،یاپھرغیرمتوقع اختتام کی صورت ایک جملہ طنزِ ملیح کی طرح کام کرچکنے کےبعد،گال پرانگلیوں کی صورت ابھرآتاہے۔اورقاری لاشعوری طورپراپنا گال سہلانے لگتاہے۔اور ایک لہر، سوچ کی صورت ،حبابِ شعورسے ،رگ وپے میں انگڑائی لیتی ہے۔
                 مجیدامجدکی تعلیم اورمطالعہ سرسری نہیں،عمیق تھا۔لیکن خودداری اورنوکرشاہی سے بے اعتنائی کے سبب تمام عمرمعمولی ملازمت کرتارہا۔حوادث ِزمانہ کا پامردی سے مقابلہ کیا۔      جَبرو اِستَبدادکے اِستحِصالی نظام میں سرنگوں نہیں کیا۔دریُوزہ گری مجیدامجدکا مَسلَک نہیں تھا۔ خارجی جبرحدسے گذرکرداخلی کرب سے جا ملا۔مجیدامجدنے غم سے دوستی کرلی۔اس غم نے جہاں ریختِ وجودمیں حصہ لیا،وہاں آہنگ اورلے کے ایسے پہلوبھی روشن کئے ،جونظم سے آزادنظم میں ڈھلے اورپھرنظم میں ہیئت کے کئی روپ ظاہرہوئے۔یہ غم ،ہزاررنگ سے ظاہرہوا،اورہر رنگ ایک نیا آہنگ بن گیا۔شاعرکے احساسات وجذبات ،نئی علامات سے اظہارپانے لگے۔ مجیدامجد کی شخصیت نظموں میں پہلوبدل بدل کرمنکشف ہونے لگی۔
                مجیدامجدکی نظم ہراعتبارسے مکمل اورہم آہنگ ہوتی ہے۔پہلے مصرعے سے آخری مصرعے تک نظم کا ارتقاءپرت درپرت مفہوم کی گتھیاں سلجھاتاہے،اوروضاحت کرتاہے۔اوراس پر یہ بات مستزادہے،کہ داخلی دنیا کوخارجی حوالوں سے مستندبنایا جاتا ہے،منظرنگاری اورجزئیات نگاری کے ایسے نادرنمونے نظرآتے ہیں کہ داخلیت اور خارجیت یک جاںہوجاتے ہیں۔داخل کو خارج کی دنیا سے اورمناظرکودنیائے باطن سے ثابت کرنے کا فن بہت کم لوگوں کونصیب ہوا ہے ، لیکن مجیدامجدان میں سے ایک ہے۔

No comments:

Post a Comment